Subscribe Us

header ads

پنجاب میں آخر ٹیسٹوں کی کمی کیوں آخر جواب مل ہی گیا۔ حکومتی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ۔۔۔۔۔۔


پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بی 
بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پنجاب میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس سے پہلے ٹیسٹنگ کے حوالے سے ان کی توجہ صرف مخصوص گروہوں کی سیمپلنگ تک محدود تھی جسے اب بڑھایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک بھر میں خاص کر صوبہ پنجاب پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ وہاں اب تک زیادہ کیسز اس لیے سامنے نہیں آئے کیوں کہ ٹیسٹنگ ہی کم کی جا رہی ہے۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس ٹیسٹنگ کی صلاحیت کم ہوگئی ہے بلکہ ہمارے پاس اب کورونا کے مریضوں کے سیمپل ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے ٹیسٹوں میں بھی کمی آئی ہے۔ جبکہ اس سے قبل ہماری سب سے زیادہ توجہ زائرین اور ملک کے باہر سے آنے والوں، ہسپتال میں داخل کورونا کے مریضوں اور تبلیغی اجتماع کا افراد پر تھی۔
’تاہم اب جو ہم سیمپلنگ کرنے لگے ہیں اس میں ہم نے سوچا ہے کہ بارہ سے تیرہ ہزار افراد کی ٹیسٹینگ کریں گے جس سے ہمیں لوکل ٹراسمیشن یا مقامی طور پر منتقلی کا اندازہ ہو جائے گا۔ اس میں خاص طور پر وہ لوگ اور وہ علاقے جو ہاٹ سپاٹ یا ریڈ زون ہیں، ان کا سروے کیا جائے گا اور جب سروے شروع ہو گا تو پنجاب میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں یقیناً اضافہ بھی ہو گا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم یہ نہیں کر سکتے کہ سڑکوں پر کھڑے ہو جائیں اور لوگوں کی ٹیسٹنگ کریں۔ اس کے لیے ہم نے خصوصی طور پر لاہور کے ایکسپو سینٹر میں کورونا کا فیلڈ ہسپتال تیار کیا ہے جہاں چوبیس گھنٹے آؤٹ ڈور کی سہولت موجود ہے۔ اگر کسی شخص میں کورونا کی علامات ہیں تو وہ وہاں جائے اور ڈاکٹر کو دکھائے۔ اگر ڈاکٹر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کورونا وائرس کا مریض ہے تو اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ایکسپو سینٹر کے علاوہ بھی ہم نے دیگر ہسپتالوں میں بھی الگ سے کورونا کے مریضوں کے لیے وارڈ بنائے ہیں تاکہ باقی مریضوں کو کوئی مشکل نہ ہو‘۔

پنجاب میں پہلے اور اب کتنے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں؟

8 اپریل کو وفاقی وزیر اسد عمر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان 25 اپریل تک یومیہ 25 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے گا۔
جبکہ 15 اپریل کو لاک ڈاون میں توسیع کرنے کے بعد خصوصاً پنجاب میں کورونا کی تشخیص کے لیے کی جانے والی ٹسیٹنگ میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں ہونے والی توسيع کے پہلے ہفتے میں تقریباً اکیس ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کیے گئے۔ جبکہ اس لاک ڈاؤن کے دوسرے ہفتے میں ٹیسٹنگ کی تعداد گیارہ ہزار سے زیادہ رہی یعنی اس ہفتے میں پنجاب میں کیے جانے والے ٹیسٹوں کی تعداد میں تقریباً دس ہزار ٹیسٹوں کی کمی آئی ہے۔

سمارٹ ٹیسٹنگ کیا ہے اور کیسے کی جائے گی؟

یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر سمارٹ ٹیسٹنگ ٹارگٹڈ ٹیسٹنگ کی طرح ہے۔‘
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ہم بہت بڑے پیمانے پر سکریننگ یعنی کہ ‘ماس ٹیسٹنگ’ نہیں کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’دنیا کا کوئی بھی ملک دیکھ لیں یہ کہیں پر بھی نہیں ہو رہا کیونکہ اتنے وسائل کسی ملک کے پاس نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ممکمن ہے۔ اسی لیے ہم سمارٹ ٹیسٹنگ کی طرف جا رہے ہیں‘۔
ان کے مطابق ’سمارٹ ٹیسٹنگ میں آپ اپنے آپ کو ایک جگہ یا مخصوص لوگوں تک محدود کرتے ہیں جیسا کہ وہ لوگ جن کا گھر سے باہر کا ایکسپوژر زیادہ ہے جن میں فرنٹ لائن کے لوگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا ورکزر شامل ہیں جن کی اب ہم سکریننگ کرنے جا رہے ہیں‘۔
یاسمین راشد نے بتایا کہ ’باقی وہ جگہیں جہاں رش بہت زیادہ ہوتا ہے، جیسے منڈیاں یا جہاں لوگ بڑی تعداد میں اکھٹے ہوتے ہیں یا ایسے گھر جہاں ایک گھر میں پندرہ، سولہ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں یا ایسے علاقے وہاں ہم سکریننگ کریں گے تاکہ ہمیں یہ پتا چل جائے کہ اصل صورت حال کیا ہے‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت اپنے لوگوں کو مفت ٹیسٹنگ کی بہت بڑی سہولت دے رہی ہے ’کیونکہ اس ٹیسٹ کی قیمت ہمیں چار ہزار کے قریب پڑتی ہے۔ یہ تمام ٹیسٹ اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد اگر کسی شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے تو اس کو منفی کرنے کے لیے بھی اس شخص کے مزید دو سے تین ٹیسٹ کیے جاتے ہیں‘۔

کورونا ٹیسٹ کے نتیجے دیر سے یا غلط کیوں آرہے ہیں؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ ’ہم پر لوگ بہت اعتراض کرتے ہیں کہ ٹیسٹ کےنتائج بہت دیر سے ملتے ہیں اور ہم کئی دن لگا دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے مائکرو بائیولوجسٹ دن رات محنت اور احتیاط سے یہ تمام ٹیسٹ کر رہے ہیں۔ اگر انھیں کسی قسم کا بھی کوئی شک ہوتا ہے تو وہ بار بار ایک ٹیسٹ کو کرتے ہیں تاکہ اگر کہیں مسئلہ آرہا ہے تو اسے چیک کر سکیں۔ تاہم یہ ٹیسٹ سو فصد ٹھیک نتائج نہیں دیتا ہے اور یہ مسئلہ پوری دنیا میں آرہا ہے۔
’اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بلکل ٹھیک رزلٹ ملے تو اس کے لیے ‘برونکائلز لاوئج’ لیں یعنی آپ پہلے پھیپڑوں میں پانی ڈالیں اور پھر اسے نکالیں اور اس سیمپل کا جو رزلٹ آئے گا وہ 93 فیصد درست ہوگا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے بھی جس میں گورنمٹ اور پرائیوٹ ٹیسٹ کا ڈیٹا شامل ہے، ہم اب تک 75290 ٹیسٹ کر چکے ہیں۔ اگر آپ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کو دیکھیں تو ہم نے ان سے زیادہ ٹیسٹ کیے ہیں۔ جبکہ ہم نے پنجاب میں اب ٹیسٹنگ کی صلاحیت زیادہ بڑھا دی ہے‘۔

خیبر پختونخوا میں پول ٹیسٹنگ کی جائے گی

بی بی کے نامہ نگار عزیز اللہ کے مطابق خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کی سکریننگ کے لیے بڑے پیمانے پر پول ٹیسٹنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے اور صوبائی حکومت کے مطابق اس سے بڑے گروپس یا بڑے پیمانے پر وائرس کی جانچ پڑتال کی جا سکے گی۔
صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ 27 کامیاب تجربوں کے بعد خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ پول ٹیسٹنگ شروع کر دے۔ انھوں نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ پول ٹیسٹنگ کا آغاز خیبر پختونخوا میں کے ایم یو سے کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے ٹیسٹس کرنا ہے۔

پول ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟

گومل یونیورسٹی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی کے اسٹسنٹ پروفیسر ڈاکٹر مزمل احمد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر پول ٹیسٹنگ ایک ہی وقت میں زیادہ افراد کے نمونے لے کر ایک ہی جگہ پر معائنہ کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان افراد میں وائرس مثبت ہے یا منفی۔
انھوں نے کہا کہ جیسے اگر ایک گھرانے میں بہت سارے افراد میں شبہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان میں وائرس ہو سکتا ہے تو ان کا ایک گروپ یا ایک پول ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر مثبت آجاتا ہے تو پھر مزید ٹیسٹ بھی صرف انہی میں سے ان افراد کے کیے جا سکتے ہیں جن میں وائرس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں یا جس پر شبہ ہو کہ ان میں وائرس ہو سکتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اگر نتیجہ منفی آجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان میں وائرس موجود نہیں ہے اور سب افراد محفوظ ہیں۔
اس ٹیسٹنگ سے وقت کی بچت ہو گی اور کم وقت میں زیادہ افراد کو سکرین کیا جا سکے گا۔
انھوں نے بتایا کہ پول ٹیسٹنگ کا آغاز جرمنی سے کیا گیا تھا اور وہاں اس طریقے سے بڑی تعداد میں آبادی کو سکرین کیا گیا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے